New Delhi, 7 June 2016: Social Democratic Party of India (SDPI) has taken a serious note of the conspiracy brewing regarding Dadri incident of Sept 2015 in which after the announcement from a local temple an attack was organized in which one Mohammed Akhlaq was mercilessly lynched and his young son’s skull was broken and even females were brutally attacked. The state government without taking timely action against the pre-meditated rioting, arson and criminal conspiracy to book the culprits gave a twist by starting an enquiry whether the meet found in the refrigerator in the house of late Mohammed Akhlaq was Beef or another kind? The whole controversy was given a shape which was unwarranted and unnecessary because the law is very clear that if meet is found in the house for consumption whether it is beef, no law is invoked under any provisions to punish for the possession of the meet/beef. The state government at that time totally failed to take prompt action against the attackers and to control the situation.

Now out of the incident dated 28 Sept 2015, in which Mohammed Akhlaq was lynched by well-organized mob and the trial is being held against the accused persons including a son of the BJP leader Sanjay Rana and others, another twist to the case is being given on the basis of a report obtained from forensic laboratory of Mathura in October 2015 keeping in view of the coming assembly elections in Uttar Pradesh so that the atmosphere may be polarized which it seems favors both the parties, one ruing at the Center and other ruling in the State by polarizing the communities. It is also to be taken into consideration that the meet was allegedly recovered not from the inside of the house of late Mohammed Akhlaq but from outside of his house. The authorities concerned have meekly expressed the fact but the government has not made its stand clear.

It is a matter of concern that to take mileage, the BJP and its leaders want to create terror by unproportionately raising the issue making a mindset on communal lines. It is alarming that in spite of promulgation of Section 144 in the area, the local administration could not control the holding of the meeting in temple with an avowed purpose and procession taken to file a memorandum before the authorities. No action has still been taken for making provocative speeches and threatening to hold Mahapanchayat on this issue in spite the lessons learnt from the experience in the area, including Muzaffarnagar and Shamli. The organizations ill-reputed for causing communal violence, beating innocents and unleashing a reign of terror have again being provided a lose rope for their illegal acts. No action has still being taken against the VHP, Bajrang Dal, Rashtrawadi Pratap Sena, Samadhan Sena, etc. inspite of their anti-Muslim and anti-Dalit activities in the area, raising cadres for committing criminal acts.

SDPI firmly demands that State Government must take due and preventive action against the persons who are creating menace in the Bisara village of Dadri and adjoining places. The ruling party of the state must come out clear of its stand because there is a cloud on its credibility due to its delayed and lethargic actions in the past. SDPI warns that if the anti-social elements are not timely controlled then the nexus of BJP and SP shall be exposed by way of public actions.

تقسیم کی سیاست کرنے کے لیے بی جے پی اور ایس پی کے درمیان گٹھ جوڑ قابل مذمت ۔ اڈوکیٹ شرف الدین

نئی دہلی

سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے قومی ترجمان اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے ستمبر 2015 کے دادری معاملہ میں حالیہ پیش رفت اور سازشوں پر سخت نوٹس لیتے ہوئے اپنے اخباری بیان میں کہا ہے کہ اس معاملہ میں بی جے پی اور ایس پی کے درمیان گٹھ جوڑ قابل مذمت ہے۔ پارٹی ترجمان اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اس معاملے کی تفصیل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ستمبر 2015کو مقامی مندر میں اعلان کرکے محمد اخلاق پر بے رحمی سے حملہ کرکے ان کا قتل کیا گیا اور ان کے بیٹے پر حملہ کرکے انہیں بری طرح زخمی کردیا گیا،یہاں تک کہ ان کے گھر کے خواتین کو بھی بری طرح پیٹا گیا۔ اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے اس مجرمانہ سازش، منصوبہ بند فسادات کے خلاف بر وقت کارروائی کرکے مجرموں پر قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے اس معاملہ کو دوسرا موڑ دیکر یہ انکوائری کرنا شروع کردیا کہ مقتول محمد اخلاق کے گھر کے فرڈج میں جو گوشت موجود تھا وہ گائے کا گوشت تھا یا کسی اور جانور کا گوشت تھا۔ اس پورے تنازعہ کو ایک ایسی شکل دی گئی ہے جو بلا جواز اور غیر ضروری ہے، کیونکہ قانونی طور پر اگر ایک گھر میں کھانے کے لیے اگر گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے تو قانون کے کسی بھی دفعہ کے تحت اس کے رکھنے والے کو سزا دینے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے لیکن اس وقت ریاستی حکومت حملہ آوروں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کرنے اور صورتحال کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ۔اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے ایک طرف جہاں 28ستمبر 2015 کو محمد اخلاق کا قتل کرنے والے ملزمین کے خلاف مقدمہ کی سماعت چل رہی ہے ، جس میں بی جے پی لیڈر سنجے رانا کا بیٹا بھی ملزم کے طور پر شامل ہے ، ا کتوبر 2015کو متھورا کی ایک فورنسک لیباریٹری سے حاصل شدہ رپورٹ کی بنیاد پر اب اس معاملہ کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تمام سیاسی چالیں اتر پردیش میں آنے والے اسمبلی انتخابات کو مد نظر رکھ کر کھیلی جارہی ہیں تاکہ اس سے مرکزی اور ریاستی دونو ں پارٹیوں کو سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے جو مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ہمیں اس بات کی طرف بھی غور کرنا ہے کہ اب مبینہ طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ جو گوشت اس وقت برآمد کیا گیا تھا وہ مقتول محمد اخلاق کے گھر کے اندر سے نہیں بلکہ گھر کے باہر سے برآمد کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام نے جس حقیقت کا اظہار کیا ہے اس پر حکومت نے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اس بات پر اپنی گہری تشویش کا اظہا رکرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ کو دوبارہ بھڑکا کر بی جے پی اور اس کے لیڈران اپنے سیاسی مفاد کے لیے مذہبی منافرت پھیلانے کے فراق میں ہیں۔ علاقے میں دفعہ 144کے نفاذ کے باوجودمقامی انتظامیہ مندر میں اجلاس منعقد کرنے اور حکام کو یادداشت پیش کرنے کے لیے نکالی گئی جلوس پر پابندی لگانے سے قاصر رہی ہے۔ اشتعال انگیز تقاریر اور مہا پنچایت منعقد کرنے کی دھمکیوں کے باوجود اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس سے قبل مظفر نگر اور شاملی سمیت اس علاقے میں ماضی میں جو صورتحال پیدا ہواتھا اس سے سبق حاصل کرنے میں انتظامیہ ناکام ہے۔ ایسی تنظیمیں جو فرقہ وارانہ تشدد ، معصوم لوگوں پر حملہ کرکے دہشت کا ماحول پیداکرتی ہیں ان تنظیموں کو دوبارہ اپنے غیر قانونی کارروائیوں کو انجام دینے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔ وی ایچ پی، بجرنگ دل، راشٹرا وادی پرتاپ سینا،سما دھانا سینا اور اسی طرح کی دیگر شر انگیز تنظیمیں جو اس علاقے میں مجرمانہ کارروائیوں کے ارتکاب کے لیے اپنے تنظیمی کارکنوں کو جمع کرکے مسلم مخالف اور دلت مخالف سر گرمیوں میں ملوث ہیں ان پر ابھی تک کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ ریاستی حکومت سے ایس ڈی پی آئی سختی سے مطالبہ کرتی ہے کہ دادری کے بسہارا گاؤں اورملحقہ علاقوں میں جو شر پسند عناصر ماحول کو کشیدہ کررہے ہیں ان کے خلاف احتیاطی کارروائی کی جائے۔ ریاست کی حکمران پارٹی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں اپنے موقف کو واضح طور پر عوام کے سامنے پیش کرے کیونکہ ماضی میں حکومت نے اس معاملے میں کارروائی میں تاخیر کرکے اور اپنے سست رویہ کی وجہ سے اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔ ایس ڈی پی آئی اتر پردیش حکومت کو انتباہ کرتی ہے کہ اگر سماج دشمن عناصر پر بر وقت قابو نہیں کیا گیا تو بی جے پی اور ایس پی کے مفاد پرست گٹھ جوڑ کو عوامی تحریک کے ذریعے بے نقاب کیا جائے گا۔