اگرچہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، بیگانگی اور پسماندگی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن یہ ملک میں سنگھ پریوار کے اقتدار کی پچھلی دہائی میں بڑھنا شروع ہوا۔ سنگھ پریوار نے اس عرصے میں یہ اجتماعی شعور پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ مسلمان ملک کے لیے نقصان دہ ہیں اس لیے انہیں سماج سے الگ تھلگ کرکے رکھا جانا چاہیے۔ یہ گولوالکر کا حقیقی نظریاتی پیغام ہے۔ بدقسمتی سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی سنگھ پریوار کے جھانسے میں آگئی ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی اس مہم میں سنگھ پریوار کا ساتھ دینے لگی ہیں۔مسلمانوں کی نمائندگی کے تازہ ترین اعدادوشمار جو کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا تقریباً 14.2 فیصد بنتے ہیں، پارلیمنٹ میں مختلف وزارتیں اور محکمے مسلمانوں کو ملازمت سے لے کر مقننہ، عدلیہ اور اور ایگزیکٹو تک زندگی کے تمام شعبوں سے ہٹانے کے سنگھ پریوار کے اس ایجنڈے کی جیت کی حقیقی تصویر ہیں۔٭۔موجودہ لوک سبھا (اٹھارہویں) میں چھ دہائیوں میں سب سے کم مسلم ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ صرف دس ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں صرف ایک مسلم ایم پی ہے، وہ بھی حصہ داری میں زبردست کمی کے ساتھ۔٭۔ مجموعی طور پر لوک سبھا میں صرف 24 مسلم اراکین پارلیمان (4.4%) ہیں۔ یہ مسلم اراکین پارلیمان کی ریکارڈ کم تعداد ہے، جو سترہویں لوک سبھا میں (27) تھی جس میں بی جے پی اتحاد کو 303 سیٹوں کے ساتھ اکثریت حاصل تھی۔٭۔ 2022 سے، مرکزی وزارت مسلمانوں سے مکمل طور پر خالی ہے۔٭۔وزیراعظم کے دفتر (پی ایم او) کے 52 اہلکاروں میں کوئی مسلمان نہیں ہے، یہ دفتر 1977 میں قائم ہونے کے بعد سے تاریخ میں ایسا پہلا واقعہ ہے۔٭۔سکریٹری سطح سے نیچے کی 11,131 عہدیداروں میں سے، نئی دہلی میں 54 مرکزی وزارتوں اوران کے دائرہ اختیار میں آنے والی 93محکموں میں مسلمانوں کی تعداد 178 (1.6%) ہے۔ یہ یونین گورننس کی سطحوں میں مسلمانوں کی تاریخ کی اب تک کی سب سے کم نمائندگی ہے۔٭۔ چھ وزارتیں، کوئلہ، ارتھ سائنسز، مائیکرو، سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز، ریلوے، ٹیکسٹائل، اور ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے کل 506 اہلکار ہیں جن میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔٭۔ وہ 11 محکمے، خلائی؛ مویشی پالنے اور دودھ کا کاروبار؛ صارفین کے امور؛ سابق فوجیوں کی بہبود؛ فوجی امور کی سرمایہ کاری اور عوامی اثاثہ جات کا انتظام؛ آبی وسائل، دریا کی ترقی اور گنگا کی بحالی؛ قانون سازی کے امور؛ انصاف، انتظامی اصلاحات اور عوامی شکایات اور کھیل،ان تمام محکموں میں کل 476 اہلکار تھے جن کی صفوں میں کوئی مسلمان اہلکار نہیں ہے۔ایس ڈی پی آئی کا پختہ یقین ہے کہ مختلف شعبوں اور سیکڑمیں مسلمانوں کی نمائندگی کی تعداد میں یہ گرتی ہوئی ‘ترقی’ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ مختلف کمیٹیوں جیسے سچر کمیٹی اور پروفیسر امیتابھ کنڈو کی قیادت میں بنی پوسٹ سچر ایویلیوایشن کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ اصلاحی اقدامات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیاں بی جے پی کے مسلم مخالف بیانیے اور پروپیگنڈے کی لہر کے ساتھ تیر رہی ہیں۔ان شعبوں میں اقلیتوں کی کم نمائندگی پر قابو پانے کے لیے ہر سماجی-سیاسی-اقتصادی میدان میں متناسب نمائندگی کو یقینی بنانا ہی اصل علاج ہے، اور SDPI مطالبہ کرتی ہے کہ متناسب نمائندگی کو لاگو کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ اس امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے سچر اور پوسٹ سچر ایویلیوایشن کمیٹی کی سفارشات کو شروع کیا جائے