New Delhi 20 May 2016: The Social Democratic Party of India (SDPI) has rubbished BJP president Amit Shah’s claim that the BJP’s victory in Assam and its showing in the other four state “is a stamp on the performance” of the Narendra Modi government.

Shah’s assertion that the election results in Assam, West Bengal, Tamil Nadu, Kerala and Pondicherry as the “new beginning of politics of performance” is a farce and far from truth, the party said.

SDPI national president A. Sayeed in a statement said that the way in which the BJP is celebrating the Assam victory looks like as if it has won all the 5 states’ elections that went to polls. The winning of Assam is not some ideological shift of the people of Assam from being secular to becoming Communal, or the ideological shift of Prafulla Mahanta from Secular to Communal, but because of the power hungriness of Mahanta to shift from Congress to BJP, because he was being offered the high place in the BJP, after the elections, if they win!

Sayeed said that Assam was won by the BJP because the party pulled out Narendra Modi and Amit Shah, as poster boys from the Assam Elections. The two factors with the anti-incumbency that any government will face after three terms, was the reason that the Congress lost in Assam. So, it seems rather funny to see Amit Shah claiming credit for the win in Assam, when the real story is that Assam was won despite of Amit Shah and Modi. But when one turns to other states, the dismal picture of Modi influence just multiplies many folds. BJP score in the other 4 states is just:  a big zero in Tamil Nadu and Puducherry and 3 & 1 in West Bengal and Kerala respectively. So, when the Media tries to portray that the BJP has gained in this election is absurd and outlandish.

He has expressed apprehension that with a win of BJP now in Assam one would see more atrocities, harassment and discrimination on minorities by the Hindu zealots in the days to come. More and more anti-minorities acts & laws like beef ban, “Ghar Wapsi”, stopping of grants for minorities upliftment, stopping of reservation of minorities, Dadri like attacks on innocents, vandalization and demolition of minorities’ religions places, passing of anti-minority laws in the Parliament to obstruct their development, relegating minorities as second rated citizens, forceful takeover of minority institutions and thereby denying them proper education,etc. will be enacted.

Sayeed said that every healthy democracy needs a viable opposition. However, India is heading to a phase of fragmented opposition which is not a good sign. It seems that the Congress has not to have learnt anything from its many defeats. It is a party led by a dynasty that rewards sycophants rather than nurture genuine leadership. It is also a party that has never apologized for the many scams while it was in power. Much needs to happen before the people give it another chance.

آسام میں بی جے پی کی جیت کو امیت شاہ کی طرف سے مودی حکومت کی کارگردگی قراردینا مضحکہ خیز ۔ ایس ڈی پی آئی
نئی دہلی
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے بی جے پی صدر امیت شاہ اس دعوی کو مضحکہ خیز قرار دیکر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسام میں بی جے پی کی جیت نریندر مودی حکومت کی کارگردگی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ امیت شاہ کا دعوی کہ آسام ، مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرلا اور پدوچیری میں انتخابی نتائج سے بی جے پی کی کارگردگی کی سیاست کا ایک نیا آغازہے ان کا یہ دعوی ایک دھوکہ اور حقیقت سے دور ہے۔ اس ضمن میں سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر اے سعید نے اپنے اخباریہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ حالیہ 5ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی اس طرح آسام کی جیت کی جشن منارہی ہے جیسے بی جے پی نے 5ریاستوں میں جیت حاصل کرلی ہو۔ آسام میں بی جے پی جیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ آسام کے عوام نے اپنے نظریات بدل کر سیکولر سے فرقہ پرست ہوگئے ہوں یا پروفلا مہانتا نے اپنے نظریات بدل کر سیکولر سے فرقہ پرست بن گئے ہیں۔بلکہ پروفل مہانتا کی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے وہ کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں کیونکہ انہیں بی جے پی نے آسام میں انتخابات جیتنے کی صورت میں انہیں انتخابات کے بعد اعلی عہدہ دینے کی پیشکش کی تھی۔ایس ڈی پی آئی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آسام میں نریندر مودی اور امت شاہ کو بی جے پی نے مہم کے دوران استعمال نہیں کیا تھا اس کے علاوہ کوئی بھی حکومت تین میعاد تک مستقل حکومت کرنے کے بعد عوام میں اقتدار مخالف رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے آسام میں کانگریس کی شکست ہوئی ہے۔ اب امیت شاہ کا دعوی مضحکہ خیز لگتا ہے آسام میں انہیں کی وجہ سے بی جے پی کی جیت ہوئی ہے جبکہ حقیت یہی ہے کہ آسام میں بی جے پی نریندر مودی اور امیت شاہ کے بغیر جیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم دوسرے ریاستوں کا جائزہ لیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ مودی کا اثر ورسوخ کتنا مایوس کن ہے۔ بی جے پی کیرلا میں صرف 1سیٹ، تمل ناڈو میں صفر، مغربی بنگال میں 7سیٹوں پر جیت حاصل کرسکتی ہے۔ پدوچیری میں بی جے پی نے انتخابات میں حصہ تک نہیں لیا تاکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ وہاں ایک سیٹ پر بھی نہیں جیت پائیں گے۔ لیکن میڈیا میں بی جے پی کو ایسا دکھایا جارہا ہے کہ بی جے پی نے کوئی بڑی جیت حاصل کرلی ہو یہ بھی حقیقت سے دور اور مضحکہ خیز ہے۔ ایس ڈی پی آئی صدر اے سعید نے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی آسام میں جیت کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ہندو توا اور متعصب ذہنیت کے لوگ اقلیتوں پر مزید مظالم، ہراسانی اور امتیازی سلوک کریں گے۔ اقلیت مخالف قوانین جیسے بیف پر پابندی، اقلیتوں کے فلاح کے لیے دئے جانے والے گرانٹس پر روک لگانا،اقلیتوں کے ریزرویشن پر روک، گھر واپسی، دادری جیسے واقعات، بابری مسجد جیسے اقلیتوں کے مذہبی مقامات پر حملے ، دہلی کی طرح چرچ پر حملے اورآتش زنی،اقلیتوں اداروں اور مذہبی مقامات کی تعمیر کی اجازت نہ دینا، پارلیمنٹ میں اقلیت مخالف قوانین پاس کرکے اقلیتوں کی ترقی کو روکنا، اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دینے کی کوشش ، اقلیتی اداروں پر زبردستی قبضہ اور اقلیتی طبقات کے بچوں کو مناسب تعلیم سے محروم کرنے کے قوانین نافذ کئے جائیں گے۔ قومی صدر اے سعید نے مزید کہا ہے کہ ایک صحت مندجمہوریت کے لیے ایک قابل عمل اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ تاہم ملک ایک تقسیم شدہ حزب اختلاف کے مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک اچھی علامت نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا کہ کانگریس نے کئی ناکامیوں کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ حقیقت میں کانگریس ایک خاندانی پارٹی ہے جو اچھی لیڈر شپ تیار کرنے کی بجائے چاپلوسیوں کو انعامات سے نوازتی ہے اور یہ ایک ایسی پارٹی ہے جس نے اپنے اقتدار کے دوران کئے گئے کئی گھوٹالوں کے لیے معافی تک نہیں مانگی ہے۔ عوام کانگریس کو ایک اور موقع دیں اس کے لیے کانگریس کو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔